شروع ہی سے مرد عورت کے بارے میں چند غلط فہمیوں کا شکار رہا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں.
مرد عورت کو اپنی شہوانی خواہشات کی آگ بجھانے کا ایک خوبصورت آلہ سمجھتا ہے. حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت انسان کی نسل برقرار رکھنے کے لیے پیدا کی گئی ہے اور قدرت نے اسے مرد کی رفیق اور ہر پریشانی و درد کی ساتھی پا کر بھیجا ہے. اس لیے مرد کو چاہیئے کہ وہ اس صیحح اور جائز استعمال کر کے اپنی زندگی کو بہشت کا نمونہ بنائے اور تندرست و توانا اولاد پیدا کر کے اپنی نسل کو بہتر بنائے. ا کے لیے عورت کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے آپ کو بلکل بے کس اور مجبور خیال نہ کرے یا اپنے آپ کو بالکل ہی مرد کی دست نگ تصور نہ کرے. بلکہ مرد کی ہم پلہ بن کر اپنے آپ کو صیحح معنوں میں نصف بہتر بنائے . لڑکی کے والدین کو چاہیئے کہ وہ شروع سے ہی اپنی لڑکی میں ایسے اوصاف پیدا کریں جن سے وہ مرد کے لیے وبال جان نہ بنے بلکہ اس کی صیحح شریک زندگی
ثابت ھو. اکثر اوقات مرد یہ سمجھتے ہیں کہ عورت میں جنسی خواہشات مرد کی نسبت بہت زیادہ ھوتی ہیں اور وہ تقریبا ہر وقت مباشرت کے لیے تیار رہتی ہے حالانکہ حقیقت کا اس سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا . عورت بے چاری تو خواہش کے نہ ھوتے ھوئے بھی اپنے خاوند کو خوش کرنے کے لییے مباشرت کے لیے تیار ھو جاتی ہے. اسی وجہ سے مرد یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی پر شہوت کا غلبہ رہتا ہے اور وہ خاوند کا اشارہ پاتے ہی یہ آگ بجھانے کے لیے تیار ھو جاتی ہے. جو لوگ عوررت کو وقت بے وقت ستاتے رہتے ہیں اور کثرت سے مباشرت کرتے ہیں وہ جلد ہی کمزور ھو جاتے ہیں اور جس وقت عورت کو ان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ مباشرت میں ناکام ھو جاتے ہیں بار بار ایسا ھونے سے عورت غم و غصے میں مبتلا ھو کر بدکار ھو جاتی ھے. علم تولید کے مشہور ڈآکٹر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ناکام مباشرت کی +وجہ سے بہت سی عوررتی رحم کے امراض میں مبتلا ھو جاتی ہیں. ڈآکٹر میری سٹوپس نے لکھا ہے کہ کامیاب مباشرت کے بعد عورت کا جسم ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور وہ سکون کی نیند سوتی ھے. اگر مباشرت ناکام ھو تو وہ بے چین ہوجاتی ھے اور صحت بگڑتی چلی جاتی ھے. ایک آسٹرین ڈاکٹر کے مطابق رحم کی مرض عورتوں میں پچھتر فیصد عورتوں ے رحم میں خون جم گیا کونکہ ان کو مکمل جنسی تسکین حاصل نہ ھوئی. اکثر و بیشتر مرد یہ سمجھتے یہں کہ ان کی بیوی حاملہ ھو چکی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی جنسی خواہشات کی تکمیل صیحح طور پر ھو رہی ہے. لیکن یہ بات صیحح نہیں ہے
حقیقت یہ ہے کہ حمل عورت کی پیاس بجھے بغیر بھی ٹھہر سکتا ہے کیونکہ مرد کے مادہ منویہ میں لاکھوں جراثیم ھوتے ہیں اگر ایک جراثیم بھی عورت کے بیضہ سے مل جاتے تو وہ رحم کی دیوار سے چپک کر حمل کا باعث بن سکتا ہے. بعض اوقات ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ مرد کا مادہ منویہ اندام نہانی کے منہ پر ہی گرا اور اس کے باوجود بھی حمل ٹھہر گیا اسس سے یہ بات ثابت ھوتی ہے اگر عورت بار بار بھی حاملہ ھو جائے تو اس سے یہ بات نہیں سمجھنی چاہیئے کہ عورت کی جنسی تسکین صیحح طور پر ھو رہی ہے بہت سے نوجوان شادی سے قبل بھی مباشرت کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
مردوں کو مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیئے.
جن عورتوں کو بانجھھ پن ، سیلان الرحم یا جریان عغیرہ کی شکایت ھو تو ایسی عورت سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کونکہ اس سے مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ھو جاتی ہیں. پندرہ برس سے کم عمر کی لڑکی سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے. جو عورت خود مباشرت کی خواہش ظاہر کرے اس سے مباشرت نہیں کرنی چاہیے کونکہ جس طرح وہ تم سے اس خواہش کا اظہار کر رہی ہے وہ دوسروں پر بھی اس خواہش کا اظہار کر چکی ھو گی. اور انہیں فیض یاب بھی کر چکی ھو گی. بہت سے مختلف لوگوں کا مادہ منویہ اس کی اندام نہانی میں مختلف بیماریاں پیدا کر چکا ھو گا اور یہ بیماریا ںتم کو بھی لگ سکتی ہیں اس لیے اس طرح کی عورت سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے. میلی گندی رہنے والی اور لنگڑی لولی عورت سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کونکہ ان سے گھن آنے کی وجہ سے لذت حاصل نہیں ھوتی. اپنی سے بڑی عورت سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے. اس سے تم کمزور ھو جاؤ گے. بڑوں کا قول ھے کہ اگر کوئی بوڑھا مرد نوجوان عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ جوان ھو جائے گا اور اگر کوئی جوان بوڑھی عورت سے شادی کرے گا تو وہ بوڑھا ہے جائے گا. بوڑھی عورتوں سے کبھی مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ ان کی اندام نہانی بہت سا مادہ منویہ چوس لیتی ہے اور مرد کمزور ھو جاتا ہےایسی عورتیں جو اپنی کسی سہیلی وغیرہ سے اندام نہانی رگڑوا کر انزال کروانے کی عادی ھوں ان سے بھی مباشرت نہیں کرنی چاہیئے ایسی عورت سے مباشرت کرنے سے سوزاک ھو جانے کا ڈر رہتا ھے. غیر ملکی عورتوں سے مباشرت نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ ان کا مزاج تم سے الگ ھوتا ہے
عورتوں کے بارے میں غلط تصورات اور واہمے
بنیادی طور پر مردوں کے بارے میں رائج تصورات سے مختلف ہوتے ہیں عام طور پر عمر اور شکل و صورت زیادہ تر ان باتوں کی بنیاد ہوتی ہے جیسے جتنی کم عمر ہو گی اتنی بہتر ہو گی۔ اسی طرح پرکشش خاتون میں ایک سیدھی سادی کی نسبت زیادہ سیکس ہو گی۔ عورتیں بھی اپنی چھاتیوں کے سائز‘ شکل اور لچک کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں کہ آیا وہ سخت ہیں یا نرم پڑ گئی ہیں یا جیسے بچے کی پیدائش کے بعد لٹک جاتی ہیں اسی طرح سیکس اور جنسی عمل کے دوران انتہائی حد تک پہنچنے کے بارے میں تصوراتی خیالات پائے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ذرائع نشرو اشاعت نے یہ بات پھیلا رکھی ہے کہ جتنے سخت یا برے طریقے سے اسے جنسی عمل کے دوران رگیدا جائے گا اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ہو گا اور بہت سی خواتین اسے اپنی جنسی زندگی کے معمولات کے طور پر قبول کر لیتی ہیں بے شک اس عمل میں انہیں تکلیف‘ زحمت اور بلکہ زخمی ہو جانا پڑے حالانکہ اندرونی طور پر بہت سی خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان سے جنسی عمل کے دوران نرمی برتی جائے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جنسی فعل کے دوران آخری حد تک پہنچنے کی متلاشی خاتون ایک سے زائد آخری حدودوں کی بھی خواہش مند رہتی ہے۔
عمر
تمام معاشروں میں اور خاص طور پر ہمارے معاشرہ میں عمر ایک خاص رول ادا کرتی ہے زندگی کا ساتھی چننے کے لئے ایک 60 سال سے زائد عمر کا مرد بخوشی 16 سال کی لڑکی کو زندگی کا ساتھی بنانے پر رضامند ہو جاتا ہے۔ لیکن مغربی مردوں کو اب اس بات کا پتہ چل چکا ہے کہ تجربہ کار اور بڑی عمر کی عورت جنسی عمل میں زیادہ حد تک ساتھ دیتی ہے جس سے صحیح لطف حاصل کیا جا سکتا ہے بجائے نو عمر کے جو کہ بالکل ناتجربہ کار اور جنس کے معاملہ میں اناڑی ہوتی ہے۔
جسم کی بناوٹ اور شکل و صورت
عورتوں کے لئے بنائو سنگار کا سامان بنانے والے‘ رنگین قوس قزح کے رنگوں والی ساڑھیاں بنانے والے‘ لاتعداد قسم کی برا (چولی۔ Bar) ڈیزائن کرنے والے‘ بیوٹی پارلر اور مساج کرنے والوں کا بس صرف ایک مقصد ہے کہ عورت کو کسی طرح نرم اندام‘ نرم و نازک‘ پتلی سی بنا کر اور جنسی طور پر پرکشش بنا کر اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ مرد کو لبھائے یا اپنی طرف متوجہ کر سکے۔ خواہ سکول ہو یا کالج‘ نوکری کے لئے درخواست دی ہو یا شادی کے لئے خاوند کی تلاش ہو ہر جگہ شکل و صورت کو غیر ضروری اہمیت دی جاتی ہے کیا وہ گوری ہے یا کالی؟ کیا وہ پتلی ہے یا موٹی؟ یہ سب چیزیں شکل و صورت کے ساتھ مل کر اہمیت کو بڑھاتی ہیں جبکہ سیدھی سادی بنائو سنگھار کے بغیر خواتین ان چیزوں کی وجہ سے حساس ہو جاتی ہیں اور عجیب سا محسوس کرتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ بہت سے مردوں کا تجربہ ہے کہ سیدھی سادی خواتین جنسی عمل کے دوران زیادہ ردعمل ظاہر کرتی ہیں اور ان کے تعاون کی حد ان ’’نیوٹرون بموں‘‘ سے زیادہ ہوتی ہے جو سج کر ہر انگ انگ سے سیکس کا اشتہار بنی پھرتی ہیں لیکن دور کے ڈھول سہانے۔
چھاتیاں
چھاتیوں کا سائز بہت سی نوجوان خواتین کے لئے پریشانی کا باعث ہوتا ہے اور انہوں نے پلاسٹک سرجری کا نام سنا ہوتا ہے اس وجہ سے لاتعداد نوجوان خواتین اپنی چھاتیوں کا سائز بڑھانا چاہتی ہیں۔ یہ اس غلط تصور کی وجہ سے ہے کہ مرد ایسی چھاتیوں کو پسند کرتے ہیں جن سے ہاتھ بھر جائیں یا ہتھیلیوں میں سما جائیں۔ اسی طرح جن خواتین کی چھاتیاں بہت بڑی ہوتی ہیں وہ بھی فکر مند رہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ پلاسٹک سرجری کے ذریعے انہیں چھوٹا کرا لیا جائے‘ چھاتیوں میں تنی حالت کی کمی‘ لچک کی کمی‘ یا لٹکتی ہوئی چھاتیاں جو اکثر بچوں کو چھاتیوں سے دودھ پلانے کی حالت میں ہو جاتی ہیں یہ ایسی وجوہات ہیں جو اکثر خواتین میں پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ ہم ایسی تمام خواتین کو یقین دلاتے ہیں کہ جنسی عمل کے دوران چھاتیوں کا رول ان کے سائز یا لچک سے ہرگز مشروط نہیں ہے۔ کچھ خواتین جن کی چھاتیاں چھوٹی ہوتی ہیں وہ جنسی عمل میں فوری ردعمل دیتی ہیں بہ نسبت ان کے جن کی چھاتیاں تو بڑی ہوتی ہیں لیکن وہ جنسی عمل میں فوری اور بھرپور ساتھ نہیں دے سکتیں۔
جنسی عمل کی آخری حد تک پہنچنا آرگزم (Orgasm)
مشرقی عورت آرگزم کے بارے میں کم ہی فکرمند رہتی ہے کیونکہ اس کی پرورش اس طرح کی گئی ہے کہ اس کا کام جنسی عمل میں صرف مرد کو خوش کرنا اور اس کو راضی رکھنے کے لئے کوشاں رہنا ہے۔ اس لئے اس کا رول کرنے والا نہیں ہے بلکہ کرنے والے کا ساتھ دینا اس طرح کہ مکمل خود سپردگی کی کیفیت میں اپنے آپ کو مرد کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے وہ اس سے جس طرح کا بھی سلوک کرے۔ لیکن اب عورتوں کی آزادی اور برابری کی تحریکیں زور پکڑنے سے عورتیں بھی اب یہ فکر رکھنے لگی ہیں کہ جنسی عمل کے دوران ان کو بھی آرگزم کی حد تک پہنچنا ضروری ہوتا ہے تاکہ صحیح طور پر لطف اندوز ہو سکیں پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ جتنا یا جیسا آپ نے کر دیا اس سے زیادہ کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی غم بھی نہیں ہوتا تھا لیکن اب علم آ جانے کی وجہ سے وہ غیر ضروری طور پر فکرمند رہنے لگی ہے اور یہ سوچنے لگی ہے کہ ضرور مجھ میں کوئی کمی یا نقص ہے جو میں اپنے ساتھی کے ساتھ آرگزم کی حد یا منزل تک کیوں نہیں پہنچتی ۔
اندام نہانی اور اندام نہانی کی فولڈ (غلاف) میں اوپر کی طرف چھپے کلائیٹورس :(Clitaris) میں آرگزم مختلف ہوتے ہیں
ماسٹرز اور جانسن کے ابتدائی کام میں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ عورتوں میں دو قسم کا آرگزم ہوتا ہے انہوں نے بالکل قطعی نتیجہ کے طور پر ثابت کیا کہ تمام آرگزم کلائیٹورس میں پیدا ہوتے ہیں اور پھر اندام نہانی کی طرف چلے جاتے ہیں ایسی بات قطعی طور پر غلط ہے اور کوئی کلائیٹورس اور اندام نہانی کے آرگزم علیحدہ وجود نہیں رکھتے بلکہ صرف ایک جنسی آرگزم ہوتا ہے۔
عورتیں جنسی عمل میں سختی اور درشتگی پسند کرتی ہیں
یہ بات عام طور پر بتائی اور پڑھائی جاتی ہے کہ جدید عورت جنسی عمل کے دوران سختی پسند کرتی ہے اور اسے جتنا زیادہ زور سے جکڑا جائے گا یا تکلیف یا اذیت پہنچائی جائے گی وہ چیخے چلائے گی اور مزہ لے گی۔ اصل میں مردوں نے یہ فلسفہ ایجاد کیا اور عورتیں بھی اس پر یقین کرنے لگی ہیں یہ جاننا ضروری ہے کہ بہت سی خواتین چاہتی ہیں کہ جنسی عمل کے دوران ان کا ساتھی نرمی سے دخول کرے خاص طور پر دخول کرنے سے پہلے کی چھیڑ چھاڑ اور شروع کے دخول میں جب تک کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے آشنا نہ ہو جائیں۔ مشہور ماہر جنسیات وتسے یانا نے مردوں کو مشورہ دیا ہے کہ جنسی عمل کے دوران اپنے ساتھی سے نرمی کا برتائو کریں۔لیکن اس نرمی کا ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ مرد کا عضو تناسل بھی نرم ہو ۔۔۔۔۔
عورت کا ’’ناں‘‘ کہنے کا مطلب ’’ہاں‘‘ ہے
کسی نے کہا کہ اگر ایک بیوقوف سے بیوقوف بندہ بھی یہ کر لے کہ عورت جب ناں کہے تو اسے ہاں سمجھے تو دنیا سے0 9 فیصد مسائل ختم ہو جائیں یہ پیغام کہ ’’عورت کی ناں کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے‘‘ کو ہمارے ناولوں‘ فلموں‘ ڈراموں اور رسالوں میں اس بے دردی سے استعمال کیا گیا ہے کہ بدقسمت مرد اپنی عقل سے ہی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہے کہ اگر وہ ناں کہہ رہی ہے تو کیا وہ جنسی عمل پر آمادہ ہے کہ نہیں؟ اور کیا میں اس کی ناں کے باوجود مزید پیش قدمی کروں؟ کیا عورتیں چاہتی ہیں کہ ان کے احتجاج کے باوجود انہیں زبردستی دبوچ لیا جائے؟ اور یہ ہمارے معاشرے کا طور طریقہ ہے کہ عورت نہ نہ کرتی رہ جاتی ہے اور مرد سب کچھ کر کے فارغ ہو جاتا ہے اور یہ بھی ہمارے معاشرہ کی ریت ہے کہ عورت کو شرم اور انکار کا اظہار کرنا پڑتا ہے بے شک وہ چاہ بھی رہی ہو لیکن اس کی تربیت یہ کی گئی ہوتی ہے کہ مرد کی پہل سے بچنے کی کوشش جاری رکھے جب تک کہ مرد بزور اس پر حاوی نہ ہو جائے۔
کیاعورت ہمہ وقت جنس کی متلاشی ہوتی ہے؟
’’میں اپنی بیوی کے ساتھ کس طرح گذارا کروں‘‘اختر نے مجھ پر آشکارا کیا ’’وہ تو ہر وقت سیکس کی طلب گار ہوتی ہے۔ میں تھکا ماندہ گھر آتا ہوں اور وہ مجھ سے جنسی عمل کی توقع کرتی ہے کیا میں اسے نیند کی گولی دے دوں؟ ڈاکٹر میں اس کو کس بہانے تمہارے پاس بھیجوں گا آپ پلیز اس سے بات کریں۔‘‘دوسرے شادی شدہ لوگوں کی طرح اختر نے بھی میرا کی باتوں کا غلط مطلب اخذ کیا تھا۔ سیکس اس کے لئے دوسرے درجہ کی چیز تھی کوئی خاص ضروری چیز نہ تھی۔ جو وہ چاہتی یا خواہش رکھتی تھی وہ تھوڑا پیار سے چومنا‘ گلے لگانا‘ پیار سے لپٹانا اور اکٹھے رہنے کی خواہش وغیرہ تھی۔اختر کو اب پتہ چل چکا ہے کہ جب اس نے میرا کو گلے لگا کر چومنا چاٹنا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے جنس کے تمام معاملات سے گذرنا بھی ضروری ہے حالانکہ بہت سے مرد غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ زیادہ پیار کرنے والے صرف اس طرح ہی ہو سکتے ہیں کہ مباشرت کرتے رہیں اور زیادہ سے زیادہ دیر تک عضو تناسل کو استعمال کریں یا اندر کئے رکھیں۔میں دوبارہ تاکید کروں کہ بہت سی عورتوں کے لئے جنسی عمل دوسرے درجہ کی چیز ہے اور اس کی تکنیک آپ کیا استعمال کرتے ہیں اس سے بھی انہیں غرض نہیں۔ عورت چاہتی ہے کہ پیار کرنے والا نرمی سے اور عورت کو سمجھنے والا مرد جو اسے بہت سپیشل خاص عورت ہونے کا احساس دلائے رکھے خواہ یہ جنسی طور پر ہو یا غیر جنسی طور پر۔ دیکھیں س م‘ زبیر کے بارے میں کیا کہہ رہی ہے ’’وہ بہت شاندار قسم کا پیار کرنے والا مرد ہے اچھے کردار والا‘ نرم مزاج اور گرم جوش‘ خوش اخلاق بندہ ہے۔ وقت گذرنے کا اس کے ساتھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ جیسے ہی وہ میرے کمرے میں داخل ہوتا ہے وہ گرم جوش‘ نرم خو‘ پیار کرنے والا اور ستائش کرنے والا روپ لئے ہوتا ہے۔ دنیا بے شک ساری منتظر رہے مجھے پرواہ نہیں جب کہ وہ میرے ساتھ ہوتا ہے۔ مجھے یہ پتہ ہے کہ وہ کھلنڈرا ہے لیکن میں کیوں فکر کروں دوسروں کے بارے میں جبکہ مجھے وہ ہر چیز دیتا ہے جس کی کسی عظیم چاہنے والے سے توقع کی جا سکتی ہے۔‘‘
کیا سیکس گندی چیز ہے؟
’’لوگ ایسی کتابیں کیسے پڑھتے ہیں؟‘‘ میری حیرت زدہ سیکرٹری نے اس وقت سوال کیا جب اس نے جنسی اعضاء کی اناٹومی کی تصاویر دیکھیں۔ ’’چھی چھی‘ سیکس کتنی گندی چیز ہے‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا لیکن انگلیوں کے درمیان سے درز دیدہ نظروں سے ان تصاویر کو دیکھتی بھی رہی تاکہ اپنی فطری تجسس کی تسکین کے ساتھ ساتھ اپنی سیکس کے بارے میں تربیت کا نمونہ بھی بنی رہے۔ اس میں اس نوجوان لڑکی کا کیا قصور تھا جبکہ بچپن سے اس کی ماں نے یہ غلط سلط باتیں اس کے ذہن میں سوراخ کر کے گھسا چھوڑی تھیں۔ آزاد خیال خواتین اپنی قدامت پرست بہنوں کی نسبت سیکس کے معاملات میں زیادہ معلومات رکھتی ہیں لیکن اگر آپ ان کے آزادی کے غلاف چہرے سے اتاریں تو اندر سے وہ بھی قدامت پرست خدوخال میں نظر آئیں گی۔
سیکس کے بارے میں جرم کا احساس
سیکس کے بارے میں احساس جرم ہمیں ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کا احساس دلانے کا واحد ذریعہ ہے ۔اگر ایسا نہ تو فحاشی اتنی بڑھے کہ بہن بھائئ باپ بیٹا اور ماں بیٹے کے درمیان پردہ ہی اٹھ جائے اور معاشرےفحاشی کی وجہ تباہ ہو جائے۔ مگر
مغرب میں ساٹھویں دہائی کے بعد جب جنسی انقلاب آ چکا تھا تو ایک عورت اس چیز کی عادی ہو چکی ہے کہ وہ کسی مرد کے ساتھ بغیر کسی جرم کے احساس کے ہم بستری کر لے۔ عورتیں اس چیز پر یقین رکھنے لگی ہیں کہ ہمارے لئے یہ آزادی کی بات ہے کہ ہم جب خواہش کریں تو سیکس کے معاملہ
میں اپنی مرضی کر سکیں۔ بہت سی خواتین بہرحال یہ سمجھتی ہیں کہ پیار کے بغیر کسی کے ساتھ صرف ہم بستری کرنا تسکین کا تجربہ نہ ہو گا۔ مغربی خواتین اب محسوس کرتی ہیں کہ کنوارے پن کا زمانہ ایک صحت مند تجربہ ہوتا ہے۔ یعنی بہت زیادہ آزاد جنسی تجربات نے انہیں سیکس کے معاملہ میں بے چین اور بے تسکین کیا ہے۔مغرب کی طرح ہر ایک سے سیکس یا جنسی عمل کے لئے تیار ہو جانا سوائے چند اونچی سوسائٹی کی لڑکیوں کے‘ مشرق میں عام طور پر مفقود ہے۔ بہت زیادہ عورتوں کی تعداد شادی سے پہلے کنوار پنے کو قائم رکھنا پسند کرتی ہیں۔ اورحتیٰ کہ شادی کے بعد میں جنسی ازدواجی حالت میں شامل ہونے کے بعد اپنی سخت گیر تربیت کی وجہ سے کچھ خواتین جرم کا احساس لئے رہتی ہیں کیونکہ انہیں یہ سکھایا گیا تھا کہ سیکس ایک گندی چیز ہے اور اس میں صرف مزہ کی خاطر حصہ لینا ایک گناہ ہے۔ یہ صرف نسل بڑھانے کے لئے ہے۔ بچپن سے سکھائی گئی باتیں ان کی تمام زندگی پر حاوی رہتی ہے جب تک کہ ان کا نفسیاتی علاج نہ کیا جائے اور اس کی وجہ سے بہت سی خواتین جنسی زندگی میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتی ہیں اپنے احساس جرم کی وجہ سے جو وہ اس بارے میں اپنی تربیت کے طور پر بن چکی ہوتی ہیں اس وجہ سے خواتین میں جنسی معاملات میں سرد مہری کے رویہ کی بنیاد ان خواتین کے بچپن میں ہی رکھ دی جاتی ہے۔
ماہواری (حیض) کے دوران جنسی عمل نقصان دہ ہے
ابھی تک تقریباً تمام معاشرے حیض کو ایک گندی چیز اور عورت کی لعنت تصور کرتے ہیں۔ جب تک وہ روایتی نہانے کے بعد صاف نہ ہو جائے اب یہ مانا جاتا ہے کہ ماہواری عورتوں کے تولیدی سرکل کا ایک فزیالوجی کا مرحلہ ہے۔اسلام میں دوران حیض ملنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
عورتیں نہ اپنے آپ سے مزہ لیتی ہیں‘ نہ انہیں نیند میں آرگزم ہوتا ہےلڑکے تو اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ نہ صرف ایک دوسرے کی موجودگی میں مشت زنی کر لیں بلکہ آپس میں تجربات کا تبادلہ بھی کرتے ہیں جبکہ لڑکیاں اس معاملہ میں ہچکچاتی ہیں۔ البتہ اپنے جنسی اعضاء سے خود مزہ لینا لڑکیوں میں اتنا عام نہیں ہے جتنا لڑکوں میں۔ یہی چیز رات کو نیند میں آرگزم کے بارے میں لڑکیوں پر منطبق ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہ لڑکوں کی نسبت کم ہے۔
کیاعورتیں بھی منی کا اخراج کرتی ہیں؟
پرانے زمانہ کی مشہور اتھارٹیز جو محبت کی سائنس پر موجود تھیں وہ اوڈالاکی اور وتسے یانا تھیں‘ انہوں نے عورتوں میں جنسی خواہش کی توجیح اس طرح بیان کی ہے۔ اوڈالاکی کا بیان ہے کہ عورتوں کی اندام نہانی میں بے شمار جراثیم ہوتے ہیں جو خارش کی طرح کا احساس پیدا کئے رکھتے ہیں جنسی عمل یا مباشرت کے دوران ایک ہم آہنگ طریقہ سے مردانہ عضو تناسل جب اندام نہانی کی اندرونی سطح سے رگڑ کھاتا ہے تو اس سے اسکو آرام آ جاتا ہے۔ اس کے برعکس وتسے یانا اس کی تھیوری سے اختلاف کرتا ہے وہ دلیل دیتا ہے کہ عورت ملاپ کے شروع میں غیر متحرک ہوتی ہے اور جیسے جیسے مباشرت کا عمل آگے بڑھتا جاتا ہے وہ متحرک ہوتی جاتی ہے اور جیسے ہی وہ آرگزم پر پہنچ جاتی ہے اور منی کا اخراج کر دیتی ہے تو علیحدہ ہونا چاہتی ہے۔ قدیم زمانے میں اندام نہانی کے ایسے مادے سے چکنا ہونے کی غرض سے اخراج اور برتھولن گلینڈ سے مائع کے اخراج کو منی سمجھ لیا گیا تھا اور یہ غلط تصور آج تک اسی طرح قائم ہے کہ عورت بھی منی کا اخراج کرتی ہے اور بہت سی عورتیں آج کل بھی آرگزم کی حالت کیلئے منی کے اخراج کا لفظ استعمال کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو اکثر مکمل طور پر تسکین دہ جنسی عمل کے بعد کہی جاتی ہے۔ نتیجہ خیز بات یہ ہے کہ خواتین ہرگز مردوں کی طرح آرگزم کی حالت میں منی کا اخراج نہیں کرتیں۔
سیکس (جنسی تعلق) ایک سیکھنے کا عمل ہے
ہم سب میں سیکس اسی طرح کا ایک سیکھنے کا عمل ہے جس طرح ایک نوزائیدہ بچے میں چلنا‘ بولنا اور پاخانہ کو کنٹرول کرنے کی عادت سیکھنے کا عمل ہے۔ یا عام طور پر جس طرح کہا جاتا ہے اور یقین کیا جاتا ہے کہ قدرتی طور پر خودبخود کرنے کا عمل ہے جو بغیر سیکھے آ جاتا ہے۔ سیکھنا لاعلمی‘ جہالت کو علم اور معلومات سے بدلنے کا نام ہے سیکس کی خواہش جانوروں اور انسان میں ایک قوی فطری خواہش ہے۔ اس کے باوجود فطری جنسی خواہش کا ہونا اور ایک عورت سے اس خواہش کی تکمیل پر عمل کرنا دو مختلف چیزیں ہیں اور ان کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے جو کہ صرف سیکھنے اور معلومات حاصل کرنے سے پاٹی جا سکتی ہے۔ مجھے اس کی وضاحت ایک کیس ہسٹری سے کرنے دیں۔حامد میر نے جذباتی انداز میں مجھے بتایا کہ ’’ڈاکٹر صاحب‘ زینت امان نے میری کیمسٹری کے ساتھ کچھ کر دیا ہے۔ میں جب اسے فلمی سکرین پر دیکھتا ہوں تو جنسی طور پر انتہائی مشتعل ہو جاتا ہوں اور اس سے ہم بستری کی خواہش کی آگ میں جلتا رہتا ہوں لیکن افسوس اس دنیا میں بھیک منگے ایسی شہزادیوں کو کہاں حاصل کر سکتے ہیں‘‘ یہ حامد میر میں جو جنسی طور پر فوری ردعمل ہوتا ہے یہ فطری نہیں ہے بلکہ یہ اس سالوں برسوں کے خیالات کا شاخسانہ ہے جو کسی ’’سیکس بم‘‘ کو دیکھ کر جنسی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔سیکس جانوروں میں بھی مکمل طور پر صرف فطری خواہش پر ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے باقاعدہ کرنے سے پہلے سیکھتے رہتے ہیں اگر جانوروں کے بچوں کو تنہائی میں رکھ کر علیحدہ پالا جائے تو بڑے ہو جانے کے باوجود وہ جنسی عمل صحیح طور پر انجام دینے کے قابل نہیں رہیں گے۔پیری ہارلو نے تفصیل کے ساتھ بندروں میں بالغ ہونے سے پہلے سیکس کے عمل کو سیکھنے کے طریقوں پر مطالعہ و مشاہدہ کر کے اپنی کتاب ’’محبت کرنے کے طریقے‘‘ (Learning of Love) میں درج کیا ہے۔ اس نے کچھ چھوٹے بندروں کو علیحدہ کر کے رکھا تاکہ وہ بچپن کے ان تجربات سے علیحدہ رہیں جیسے ایک دوسرے سے چھو جانا یا ان کی مائوں کا انہیں چاٹنا اور پیار کرنا یا دوسرے بچے بندروں سے کھیلنا یا بالغ بندروں کو جنسی عمل میں مبتلا دیکھنا۔ جب یہ علیحدہ علیحدہ رکھے گئے بندر بڑے ہو گئے تو انہوں نے جنسی عمل کی کوشش ضرور کی لیکن وہ بہت بھدے طریقے سے ایسا کر رہے تھے اور صحیح طور پر کامیاب نہیں ہو سکے ان کے اندر فطری طور پر جنسی جذبہ اور خواہش تو موجود تھی لیکن اس کا طریقہ نہیں جانتے تھے اس وجہ سے وہ مادہ بندروں سے جنسی عمل نہ کر سکے۔ ایسے تجربات دوسرے محققوں نے بھی انجام دئیے۔خوش قسمتی سے جانوروں میں تخیلاتی ہیرو کا وجود نہیں ہوتا۔ سیکس ان میں ایک حقیقی بنیاد پر موجود ہے اور نسل در نسل جانور جو نوجوان ہو رہے ہوتے ہیں وہ براہ راست اپنے والدین سے یہ عمل سیکھتے ہیں انسانوں کے برعکس‘ جبکہ انسان اپنے معاشرہ کے رسم و رواج ‘ تبلیغ کرنے والوں اور اساتذہ سے اثر انداز ہوتے ہیں جبکہ انہیں خود یہ سب کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جانور سیکس کی طرف فطری خواہش سے عملدرآمد کرتے ہیں جانوروں میں سیکس بنیادی طور پر ایک خودکار عمل ہے جو کہ میکانکی انداز میں نسل بڑھانے کی غرض سے کیا جاتا ہے۔ وہ اسے ایک خاص عرصہ یا موسم میں کرتے ہیں خاص طور پر دودھ پلانے والے جانوروں میں جہاں مادہ اس موسم میں جوش (Heat) پر ہوتی ہے۔ جبکہ انسانوں میں سیکس کا ایک مقصد تو واضح طور پر نسل بڑھانا ہے لیکن یہ انتہائی طور پر ایک خوش گوار تجربہ ہوتا ہے۔ جانوروں کے برعکس یہ کسی بھی وقت یا ہر وقت سیکس کا عمل انجام دے سکتے ہیںحتیٰ کہ جب ان کا موڈ نہ بھی ہو یا وہ نہ چاہتے ہوں۔سیکس کا عمل بہت زیادہ تسکین اور سکون کا باعث ہوتا ہے خاص طور پر اس ذہنی دبائو کی صدی میں مردوں کے لئے یہ ایک نعمت ہے بشرطیکہ یہ ہلکا پھلکا اور سیکس برائے سیکس ہو نہ کہ صلاحیتیں آزمانے کے لئے اور برتری جتانے کے لئے۔ ایسا سیکس ایک بہترین درزی سے سلائے ہوئے سوٹ کی طرح ہوتا ہے جو کہ صحیح پیمائش کے مطابق سلا ہو۔ اور جب آپ اس کو پہنیں تو یہ آپ پر قدرتی طور پر سجے جیسے یہ آپ کے لئے ہی بنایا گیا ہو۔ اسی طرح خوشگوار جنسی عمل کے بعد آپ دوبارہ توانائی سے بھرپور اور آرام دہ حالت میں محسوس کرتے ہیں خود بخود تسلی سے یہ سسٹم اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی۔ آپ کے جسم کو کوئی چیز اتنا ہلکا پھلکا نہیں کرتی جتنا آزادی کے ساتھ خوشگوار یادیں لئے جنسی عمل۔ آپ لگتا ہے کہ دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں جسمانی‘ ذہنی اور جذباتی طور پر۔ یہ آپ کے جسم کے ہر خلیہ کو دوبارہ توانائی سے بھر دیتا ہے۔ یہ آپ کے لئے فطرت کا ایک گراں قدر عطیہ ہے۔
اپنے آپ کو جانئیے آئندہ جب آپ سیکس کے عمل سے گذریں گے تو یہ آپ کے لئے پرجوش اور طاقت بخش چیز ہو گی
آپ اس سے صحیح طور پر لطف اندوز ہوں گے کیونکہ یہ حقیقت کی بنیاد پر ہو گا نہ کہ تصورات اور تخیلات کی بنیاد پر واہمے وغیرہ کی طرز پر۔ اب تک آپ ابنارمل تصوراتی دنیا کے سیکس کے ہیرو کو ہی پورے اعتماد کے ساتھ ایک ماڈل کے طور پر سجائے صحیح سمجھتے رہے۔ آپ اپنے ذہن و دماغ سے وہ سارے مسخ شدہ اور مڑے تڑے جنسی واہمے اور خیالات دور کر دیں جو عرصہ دراز یا برسوں سے آپ کے دماغ میں لنگر انداز رہے تاکہ آپ نئی حقیقتوں سے آشنا ہو سکیں۔ ہمارے قدیم معاشرے سے یہ بات چلی آ رہی ہے کہ سب سے ضروری لیکن سب سے مشکل ذہنی مشق ’’اپنے آپ کو جاننا ہے‘‘ اپنے آپ کو جاننے کا مطلب صرف ذہن نہیں بلکہ جسم کو بھی جاننا ہے بلکہ اپنے جنسی اعضاء کو جاننا بھی بہت ضروری ہے تاکہ آپ صحیح طور پر عملدرآمد کر سکیں۔ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے اپنے جسم کو جاننے سے آپ اس کی علاج کے طور پر اہمیت کو بھی جان جائیں گے۔ آپ ایک مثال سے دیکھیں : ایک پچاس سالہ مرد اس بات پر پریشان ہو رہا ہے کہ چونکہ اس کا عضو تناسل فوری طور پر کھڑا نہیں ہوتا اس لئے شاید وہ اپنی جنسی قوت کھو رہا ہے اسے اس چیز کا یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ 35 سال کی عمر کے بعد عضو تناسل فوری طور پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ اسے تھوڑا وقت لگتا ہے اور یہ ایک نارمل فزیالوجی کا عمل ہے اس لئے فکر مند ہونا بے جا ہے اور جب وہ یہ جان گیا کہ لاتعداد مرد ایسے ہیں جن کے عضو تناسل کو سخت ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے تو اس کی جنسی قوت فوری طور پر عود آئی اور وہ نارمل جنسی عمل کرنے لگا۔
اپنے جنسی اعضاء کو جانئے مرد اور عورت دونوں کے لئےلازم ہے کہ وہ اپنے جنسی اعضاء اور ان کے افعال کو سمجھیں ا ور ان کے بارے میں علم حاصل کریں
جنسی اعضاء کی اناٹومی کے باے میں بہت درجہ کی لاعلمی ابھی بھی عام طور پر پائی جاتی ہے۔ مجھے آپ کے سامنے شمع کی مثال بیان کرنی ہے جو کہ ایک لیڈی آرکیٹکٹ ہے اس نے مجھے بتایا ’’ہم ہنی مون پر گئے تو سیکس کے بارے میں شاد ی شدہ لوگوں کے لئے لکھی کتابیں اور معلوماتی کتابچے ساتھ لے گئے کیونکہ ہم دونوں کو ہی اس بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں۔ میں گھر میں سب سے چھوٹی تھی اس لئے میرے والدین اور بڑی بہنیں مجھے سیکس کے بارے میں معلومات سے دور رکھتی تھیں۔‘‘ ایسے بہت سے کیس آپ کو مزید مل جائیں گے۔ اپنے اعضا اور اپنے یا اپنی ساتھی کے اعضاء کا بھی علم حاصل کریں۔ باب نمبر 4 اور 5 میں بالترتیب مردانہ اور زنانہ اعضائے تناسل کی اناٹومی اور فزیالوجی بیان کی گئی ہے انہیں پڑھیں اور ان نئی معلومات کا شفا بخش اثر آپ خود محسوس کریں گے۔ اب آپ بس اس راہ پر گامزن ہو چکے ہیں کہ اپنی ’’جنگ‘‘ جو کہ جنسی عمل کی ناکامی یا صلاحیت کی کمی کے خلاف ایک ایسے ہتھیار سے شروع کر چکے ہیں جو کہ کاری اور بہت طاقتور ہے اور اس کا نام علم ہے